مردوں کے نکاح ثانی پر تو بہت بات ہوتی ہے ،کوئی حمایت کرتا ہے تو کوئی شدید مخالفت کرتا ہے باوجود اس کے کہ شریعت مطاہرہ میں اس کے جواز پر دلائل موجود ہیں ۔مگر پھر بھی اکثر طور پر خواتین اس معاملے میں خود غرضی کا شکار نظر آتی ہیں اور شوہر کے بارے میں شراکت برداشت نہیں کرتیں ۔ بہر حال یہاں میرا موضوع بحث مردوں کی دوسری شادی نہیں بلکہ عورتوں کی دوسری شادی ہے ۔یعنی وہ عورتیں جو بیوہ ہوجائیں یا طلاق کے سبب اپنے شوہروں سے جدا ہوچکی ہوں تو ان کے نکاح میں جلدی کرنی چاہئے ۔ کیوں کہ ان کے نکاح میں تاخیر بہت سی پریشانیوں کا سبب ہے ۔جب کسی طلاق یافتہ عورت سے پوچھا جاتا ہے کہ تم شادی کیوں نہیں کرتیں؟ تو زیادہ تر وہ جزباتی باتیں کرکے اپنے آپ کو اور دوسروں کو تسلی دینے کی کوشش کرتیں ہیں ۔کبھی وہ اپنے بچوں کا بہانا کرتی ہیں کہ میرے بچوں کو کون پالے گا یا میں اپنے بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی وغیرہ وغیرہ ۔اس آرٹیکل میں ہم ان وجوہات کا تذکرہ کریں گے جن کی وجہ سے خواتین شادی کے لئے تیار نہیں ہوتیں اور ساتھ ہی ان کا اسلامی اور معاشرتی حل بھی تجویز کریں گےتاکہ وہ خواتین جو نکاح ثانی کرنا نہیں چاہتی ہیں ان کے لئے یہ امر سہل ہوجائے اور وہ جو پہلا نکاح ختم ہونے کے بعد دوسرے نکاح کو برا سمجھتی ہیں انہیں خود یہ سمجھنے میں اور دوسروں کو سمجھانے میں آسانی ہوجائے کہ ایک مسلمان عورت کے لئے کسی کےنکاح میں رہنا کتنا ضروری ہے۔
عورتوں کے نکاح ثانی میں رکاوٹ کی وجوہات:
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں کی شادی میں بہت سی رکاوٹیں ہوتی ہیں ۔ دوبارہ شادی نہ کرنے کی کئی وجوہات ہو تی ہیں ، جو کہ معاشرتی، نفسیاتی، اور ذاتی عوامل پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہا ں ان میں سے کچھ اہم وجوہات بیان کی گئی ہیں:
1. معاشرتی دباؤ اور روایات
بہت سے معاشروں میں عورتوں دوسری شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ انہیں بیوہ یا طلاق یافتہ ہونے کے بعد دوبارہ شادی کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خاص طور پر خاندان اور برادری کی طرف سے دوسری شادی کے خلاف بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے عورتیں اس قدم کو نہیں اٹھاتیں۔
2. بچوں کی ذمہ داری
بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں کے بچوں کی پرورش ان کی اولین ترجیح بن جاتی ہے، اور وہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ شادی سے بچوں کی زندگی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔لھذا وہ شادی نہیں کرتیں ۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بعض اوقات، بچوں کو نیا والد قبول کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے عورتیں دوبارہ شادی سے گریز کرتی ہیں۔مگر کیا بچے بڑے ہونے کے بعد اس ماں کے وفادار رہتے ہیں جس نے ان کی وجہ سے اپنی زندگی اکیلے گزار دی ؟؟؟۔۔۔تو اس کا جواب نوے فیصد منفی میں ہی ہوگا۔
3. خودمختاری اور آزادی
طلاق یا بیوہ ہونے کے بعد بعض عورتیں خودمختاری حاصل کرتی ہیں اور دوبارہ شادی کرنے کی بجائے آزادانہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔وہ مالی، جذباتی اور سماجی طور پر خود کفیل ہونے کے بعد دوبارہ شادی کو غیر ضروری سمجھتی ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی بھول ہے کہ وہ بغیر کسی شوہر کے اپنی زندگی گزار لیں گی۔۔۔۔
4. ماضی کے تجربات
طلاق یا شریک حیات کے انتقال کے بعد عورتوں کو بعض اوقات اپنے ماضی کے تلخ تجربات یاد رہتے ہیں، اور وہ دوبارہ ایسی صورتحال سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ایسے ہی شادی شدہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات یا نا خوشگوار حالات انہیں دوبارہ شادی کرنے سے روک دیتے ہیں۔ مگر کیا ہر شوہر ان کے سابقہ شوہر کی طرح ہوتا ہے ؟؟؟۔۔۔ تو اس کا جواب بھی نفی میں ہی ہوگا
5. مذہبی اور روحانی عقائد
کچھ خواتین کے لیے مذہبی اور روحانی وجوہات اہم ہوتی ہیں۔ مثلاً، بعض روایتی عقائد میں بیوہ خواتین کی دوسری شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔بعض عورتیں اپنے مرحوم شوہر سے وفاداری کے جذبات کی بنا پر دوبارہ شادی نہیں کرتیں۔حالانکہ دوسری شادی کرنا ان کے لئے وفاداری کے منافی نہیں ۔
6. خاندان کی طرف سے حمایت نہ ہونا
کئی خواتین کو دوسری شادی کے حوالے سے اپنے خاندان کی حمایت حاصل نہیں ہوتی، خاص طور پر والدین یا بچوں کی جانب سے۔اسی وجہ سے وہ دوسری شادی نہیں کرتیں اگرچہ انہیں ااشد ضرورت کیوں نہ ہو۔اور وہ اپنے خاندان کے دباؤ کی وجہ سے وہ دوبارہ شادی کرنے کا ارادہ ترک کر دیتی ہیں۔
یہ تمام وجوہات عورتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور یہ وجوہا ت ہر عورت کے حالات اور پس منظر کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔یہاں ہم اس مسئلے اسلامی ،معاشرتی اور نفسیاتی حل بیان کریں جس کے ذریعے معاشرے کو ان مسائل سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔
اسلامی حل
معاشرتی اور اسلامی نقطہ نظر سے بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں کے دوبارہ شادی نہ کرنے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام میں خواتین کے حقوق کو محفوظ رکھتے ہوئے معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو دوبارہ شادی کرنے میں آسانی اور عزت ملے۔اسلام نے خواتین کو عزت اور برابری کے ساتھ دوبارہ شادی کرنے کا حق دیا ہے۔ کچھ اہم اسلامی تعلیمات درج ذیل ہیں:
- دوبارہ شادی کا حق:
اسلام میں بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کی مکمل اجازت ہے۔ قرآن اور احادیث میں کئی مثالیں موجود ہیں جہاں بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین نے دوسری شادی کی ہے۔ - قرآن میں حکم:
قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے واضح طور پر حکم ارشاد فرمایا ہے کہ : وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (سورہ البقرہ: 234-240)
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے
اس سےمعلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے یا اسے طلاق ہو جائے، تو وہ عدت پوری کرنے کے بعد وہ دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔جب قرآن مجید نے عورت کی دوسری شادی کو جائز قرار دیا ہے تو یقینا اس میں کوئی بہتری ہی ہوگی ۔
- نبی کریم ﷺ کا بیوہ عورتوں سے سلوک :
نبی کریم ﷺ نے بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں کی عزت اور فلاح کے بارے میں بہت زور دیا ہے اور ان سے شادی کرنے کو نہ صرف جائز بلکہ ایک نیکی کا کام قرار دیا ہے۔پیارے آقا ﷺ نے بذات خود بیوہ عورتوں سے نکاح فرما کر انہیں ام المومنین بننے کا شرف عطا فرمایا ہے ۔آپ ﷺ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کی دوسری شادی کوئی عمل ِ قبیح نہیں ہے۔ - نکاح کو آسان بنانا:
اسلام میں نکاح کو آسان بنانے کی تلقین کی گئی ہے، تاکہ معاشرتی دباؤ اور روایات عورتوں کو شادی سے نہ روک سکیں۔ زیادہ مہر اور جہیز کے مسائل کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں دوسری شادی تو دور پہلی ہی ناممکن معلوم ہوتی ہے ۔سنن ابی داود میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خير النكاح ايسره (أبو داود فى «سننه» برقم: 2117،)
ترجمہ : بہترین نکاح وہ ہے جو آسانی سے ہوجائے ۔لھذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کم سے کم خرچ میں نکاح کرنے کے طریقے کو اپنائیں تاکہ نکاح کرنا آسان ہوجائے اور نئے شادی شدہ جوڑے خرچوں کے دلدل میں پھنسنے سے بچ جائیں۔
معاشرتی حل
.معاشرتی رویے اور روایات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن سے نہ صرف یہ مسئلے بلکہ دوسرے مسائل بھی حل ہو سکیں گے :
- روایات کو بدلنا:
خواتین کی دوسری شادی کے بارے میں منفی سوچ اور روایات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی سطح پر لوگوں کو یہ شعور دیا جانا چاہیے کہ دوبارہ شادی نہ صرف جائز ہے بلکہ کئی صورتوں میں ضروری بھی ہو سکتی ہے۔ - تعلیم اور شعور میں اضافہ:
تعلیم کے ذریعے لوگوں میں شعور پیدا کیا جا سکتا ہے کہ بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں کی دوسری شادی کوئی شرمناک عمل نہیں ہے بلکہ ان کا حق ہے۔ دینی اور اخلاقی تعلیمات پر زور دیا جائے تاکہ لوگ ان خواتین کی عزت و تکریم کریں اور انہیں معاشرے میں مقبولیت حاصل ہو ۔ - خاندانی دباؤ کو ختم کرنا:
خاندانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عورتوں کی دوبارہ شادی ان کی فلاح کے لیے ہے، اور اس میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ خصوصاً بچوں کے حوالے سے، انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ان کی والدہ کی خوشی اور استحکام دوبارہ شادی کے ذریعے بھی ممکن ہے۔- رشتہ داریوں کی حمایت:
جب مسلمان آپس میں ملتے ہیں تو ملنے سے تعلقات قائم ہوتے ہیں اور پھر وہ بڑھتے بڑھتے ایک رشتہ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں ۔خاندانی ملاپ عورتوں کی دوسری شادی کے سلسلے میں مددگار ثابت ہو تا ہے کیونکہ جہاں ملنا ملانا زیادہ ہوتا ہے وہاں بچیوں کے رشتوں کی پریشانی دور ہوجاتی ہے۔اور مناسب رشتے تلاش کرنا اور ان کو قبول کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
- رشتہ داریوں کی حمایت:
نفسیاتی اور جذباتی مدد
- سپورٹ سسٹمز بنانا:
بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین کو نفسیاتی اور جذباتی مدد فراہم کرنے کے لیے مختلف سپورٹ سسٹمز بنائے جا سکتے ہیں، جیسے خواتین کے گروپس، تنظیمیں، یا مراکز جو ان کی مدد کریں اور انہیں دوبارہ شادی کے فیصلے میں حوصلہ دیں۔- ذہنی صحت کی سہولیات:
عورتوں کو ان کی ذہنی صحت کا خیال رکھنے کے حوالے سے مناسب مدد فراہم کی جائے، تاکہ وہ ماضی کے تجربات سے نکل کر مستقبل میں بہتر زندگی گزار سکیں۔
- ذہنی صحت کی سہولیات:
یہ مسئلہ ہمارے معاشرے کے ان مسائل میں سے ہے جن پر بہت کم بات کی جاتی ہے اور ان موضوعات کو بیان کرنا یا اس حوالے سے کسی کی رہنمائی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین اس معاملہ میں پریشانی کا اظہار کرنے سے گھبراتی ہیں اور کسی سے مشورہ کرنا مناسب نہیں سمجھتیں ۔اور ستم تو ان نام نہاد اسکالرز نے کیا جو اس فطرتی مسئلے کو عرب معاشرے کا حصہ بنا کر پیش کیا اور بر صغیر کو عورتوں کو اکیلا رہنے کا مشورہ دیا ۔۔افسوس صد افسوس ۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم سیرت مطرہ کا مطالعہ کریں اور اسی کے مطابق زندگی گزاریں تو ہمارا معاشرہ ہزاروں مسائل سے نکل کر ترقی کی بلندیوں پر گامزن ہوسکتا ہے۔