ایک روز میں نے اپنے طلبہ سے سوال کیا ،ماہِ ربیع الاول آنے والا ہے آپ نے کیا تیاری کی ہے ؟،کسی نے جواب دیا کہ ہم نے لائٹیں خرید لی ہیں ، کسی نے کہا کہ ہم نے نئے کپڑے سلوالیے ہیں ،کوئی کہنے لگا کہ میں نے نیاز کی تیاری کرلی ہے اس مرتبہ بڑا لنگر کروں گا ،ایک طالب علم کھڑا ہو اور کہنے لگا کہ اس مرتبہ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بڑی محفل کرنی ہے۔یہ تمام ہی اپنی جگہ صحیح تھے کیونکہ برس ہا برس سے اہل سنت سواد اعظم کا طریقہ رہا ہے کہ ماہ ربیع الاول کو بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ چراغاں کرتے ہیں ،لنگر کھلاتے ہیں اور جلسہ و جلوس کر کے اپنے نبیﷺ کی آمد کی خوشیاں مناتے ہیں ۔اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ یہ تمام افعال اپنی جگہ قابل تحسین ہیں مگر یہاں میرے سوال کرنے کا مقصد کچھ اور ہی تھا ۔مجھے یاد ہے کہ جب ہم اپنے دورِ طالب علمی سے گزر رہے تھے ، ہاسٹل میں ہوا کرتے تھے اور دن رات قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے ۔ہر بڑی رات اور ہر بڑا دن بڑی تعظیم و توقیر سے مناتے تھےمگر خاص طور سے جب ماہِ ربیع الاول آنے والا ہوتا تھا تو اس کی بہاریں پہلے سے ہی محسوس ہونا شروع ہوجاتی تھیں ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ماہِ ربیع الاول سے چند دنوں قبل استاد محترم سب طلبہ کو جمع فرماتے تھے اور یوم آمدِ خاتم النبیین کی تعظیم کے متعلق درس دیا کرتے تھے ۔درود و سلام کی تلقین کیا کرتے تھے اور رسول اللہ سے عشق و فا کی نصیحت کیا کرتے تھے ،بہت ہی رو ح پرور اور دلکش محفل ہوا کرتی تھی ۔اس محفل کی خاصیت یہ تھی کہ اس کے بعد ہم طلبہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور ہم سارے ماہِ ربیع الاول کی تعظیم و توقیر میں مبالغہ کرتے تھے۔ظاہری خوشی حاصل کرنے سے زیادہ باطنی خوشی پر توجہ دیتے تھے ،عارضی خوشی سے بڑھ کر دائمی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔یہی اہم پیغام ہے جسے میں نے آج قلمبند کرنے کا قصد کیا ہے تاکہ میرے طلبہ و متعلقین اور عامۃ المسلمین کو ماہِ ربیع الاول کی اصل تیاری کی طرف رہنمائی مل جائے۔اس مبارک مہینے کی ظاہری تیاری تو ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ باطنی تیاری بھی بہت ضروری ہے ۔صرف چار کام اگر ہم کرلیں تو ہم اپنے باطن کو جشن آمد رسول ﷺ کے لئے تیار کرلیں گے اور وہ چار کام یہ ہیں۱- اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے اور کثرت استغفار کرنا ہے ۔۲- زیادہ سے زیادہ درود پاک پڑھنا ہے چاہے ہر نماز کے بعد ایک تسبیح ہی ہو۔۳- ہر غیر شرعی کاموں سے بچنا ہے۔۴- دینی معلومات حاصل کرنی ہے۔جب ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں تو ہم باطنی طور پر پاک و صاف ہوجاتے ہیں اور اپنے رب سے قریب ہوجاتے ہیں ۔اسی لیے روحانیت کے حصول میں پہلی سیڑھی کثرت استغفار ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ التائب من الذنب كمن لا ذنب له توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو (ابن ماجہ )۔ پھر جب ہم درود پاک پڑھتے ہیں تو ہماری روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ مَنْ صلَّى عليَّ صلاَةً، صلَّى اللَّه علَيّهِ بِهَا عشْرًا۔ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اسے دس رحمتیں عطافرماتا ہے(صحیح مسلم )۔پھر جب روحانیت حاصل ہوجائے گی تو اس کیفیت کو بچانا بھی ضروری ہے اس لئے ہمیں ہر غیر شرعی کام سے بچنا ہے تاکہ ہماری باطنی کیفیت برقرار رہے اور غیر شرعی کاموں سے بچنے کے لئے علم دین کا حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ہمیں حلال و حرام کے بارے میں صحیح معلومات ہو اور ہم حرام کاموں سے بچیں اور حلال کو اختیار کر سکیں ۔ دین کا علم حاصل کرنا تو اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ اگر ہم صرف میلاد کی خوشی مناتے رہیں اور مقصد میلاد جوکہ ہدایت انسانیت ہے ، حاصل نہ کریں تو بھلا ہم سے زیادہ بھی کوئی بے عقل ہوگا۔علوم دینیہ حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے تاکہ وہ اپنے تمام معاملات احسن انداز میں ادا کرسکے۔لھذا کم از کم یہ چار کام اگر ہر مسلمان کر لے تو وہ حقیقی میلاد ی بن جائے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں میلاد النبی ﷺ کی برکات نصیب فرمائے۔آمین(کلک نورین )